EN हिंदी
کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں | شیح شیری
koi dam bhi main kab andar raha hun

غزل

کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں

جون ایلیا

;

کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں
لیے ہیں سانس اور باہر رہا ہوں

دھوئیں میں سانس ہیں سانسوں میں پل ہیں
میں روشندان تک بس مر رہا ہوں

فنا ہر دم مجھے گنتی رہی ہے
میں اک دم کا تھا اور دن بھر رہا ہوں

ذرا اک سانس روکا تو لگا یوں
کہ اتنی دیر اپنے گھر رہا ہوں

بجز اپنے میسر ہے مجھے کیا
سو خود سے اپنی جیبیں بھر رہا ہوں

ہمیشہ زخم پہنچے ہیں مجھی کو
ہمیشہ میں پس لشکر رہا ہوں

لٹا دے نیند کے بستر پہ اے رات
میں دن بھر اپنی پلکوں پر رہا ہوں