EN हिंदी
کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے | شیح شیری
koi chhoTa yahan koi baDa hai

غزل

کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے

اصغر ویلوری

;

کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے
یہ سارا کھیل ظالم وقت کا ہے

وہ سر کرتے ہیں جن کو حوصلہ ہے
وگرنہ زندگی اک مرحلہ ہے

تجھے معلوم کیا ہے لذت غم
ترا دل عشق سے نا آشنا ہے

جو خود واقف نہیں منزل سے اپنی
خدا بخشے ہمارا رہنما ہے

ڈبوئے گا اسے کیا کوئی طوفاں
خدا کشتی کا جس کی ناخدا ہے

چھپاؤں آئنے سے کیا حقیقت
بڑا کمبخت ہے سچ بولتا ہے

فقط اک درمیاں پردا ہے ورنہ
ترا میرا ازل سے واسطہ ہے

ملا کر ہاتھ ہم سے فائدہ کیا
وہی اب تک دلوں میں فاصلہ ہے

نظر جاتی نہیں اصغرؔ کسی پر
نظر میں جب سے وہ جلوہ نما ہے