کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے
یہ سارا کھیل ظالم وقت کا ہے
وہ سر کرتے ہیں جن کو حوصلہ ہے
وگرنہ زندگی اک مرحلہ ہے
تجھے معلوم کیا ہے لذت غم
ترا دل عشق سے نا آشنا ہے
جو خود واقف نہیں منزل سے اپنی
خدا بخشے ہمارا رہنما ہے
ڈبوئے گا اسے کیا کوئی طوفاں
خدا کشتی کا جس کی ناخدا ہے
چھپاؤں آئنے سے کیا حقیقت
بڑا کمبخت ہے سچ بولتا ہے
فقط اک درمیاں پردا ہے ورنہ
ترا میرا ازل سے واسطہ ہے
ملا کر ہاتھ ہم سے فائدہ کیا
وہی اب تک دلوں میں فاصلہ ہے
نظر جاتی نہیں اصغرؔ کسی پر
نظر میں جب سے وہ جلوہ نما ہے
غزل
کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے
اصغر ویلوری