کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی
ستارے چھت پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی
لرز جاتا تھا باہر جھانکنے سے اس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اس کے در پہ رکھی تھی
وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اس کے اپنے سر پہ رکھی تھی
کہاں کی سیر ہفت افلاک اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اجلی کپاسی برف بال و پر پہ رکھی تھی
کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانیؔ
ذرا سی اوس یوں تو سینۂ پتھر پہ رکھی تھی

غزل
کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی
راجیندر منچندا بانی