EN हिंदी
کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی | شیح شیری
koi bhuli hui shai taq-e-har-manzar pe rakkhi thi

غزل

کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی

راجیندر منچندا بانی

;

کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی
ستارے چھت پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی

لرز جاتا تھا باہر جھانکنے سے اس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اس کے در پہ رکھی تھی

وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اس کے اپنے سر پہ رکھی تھی

کہاں کی سیر ہفت افلاک اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اجلی کپاسی برف بال و پر پہ رکھی تھی

کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانیؔ
ذرا سی اوس یوں تو سینۂ پتھر پہ رکھی تھی