کوئی بھی شخص جو وہم و گماں کی زد میں رہا
وہ تا حیات عذاب قبول و رد میں رہا
خدا کی ذات میں ضم ہو گیا جہاں درویش
وہاں نہ فرق کوئی کار نیک و بد میں رہا
وہ محترم ہے جو تسخیر ذات کی خاطر
تمام عمر لڑا اور اپنی حد میں رہا
مرے ہی دم سے کہانی میں معنویت تھی
مرا شمار مگر حرف مسترد میں رہا
وہ ہر لحاظ سے نا معتبر اکائی تھا
مگر وقار سے موجود ہر عدد میں رہا
اجل نے زیست کے سب مسئلے سمیٹ لیے
بڑے سکون سے وہ گوشۂ لحد میں رہا
وہ میں نہیں تھا کوئی اور شخص تھا اے سوزؔ
جو میرا جسم لیے میرے خال و خد میں رہا
غزل
کوئی بھی شخص جو وہم و گماں کی زد میں رہا
ہیرا نند سوزؔ