EN हिंदी
کوئی بھی نقش سلامت نہیں ہے چہرے کا | شیح شیری
koi bhi naqsh salamat nahin hai chehre ka

غزل

کوئی بھی نقش سلامت نہیں ہے چہرے کا

تاب اسلم

;

کوئی بھی نقش سلامت نہیں ہے چہرے کا
بدل گیا ہے کچھ ایسا چلن زمانے کا

میں کس لیے تجھے الزام بے وفائی دوں
کہ میں تو آپ ہی پتھر ہوں اپنے رستے کا

کوئی ہے رنگ کوئی روشنی کوئی خوشبو
جدا جدا ہے تأثر ہر ایک لمحے کا

وہ تیرگی ہے مسلط کہ آسمانوں پر
سراغ تک نہیں ملتا کسی ستارے کا

غضب تو یہ ہے مقابل کھڑا ہے وہ میرے
کہ جس سے میرا تعلق ہے خوں کے رشتے کا

تنا ہوا ہے وہاں آج خیمۂ خورشید
اگا ہوا تھا جہاں کل درخت سائے کا

وہ جا چکا ہے روپہلی رتوں کے ساتھ مگر
بھڑک رہا ہے ابھی تک چراغ سینے کا

گزر رہے ہیں یہ کس پل صراط سے ہم لوگ
کہ دل میں تابؔ گماں تک نہیں ہے جینے کا