کوئی بھی عشق میں اتنی ہی دیر ٹکتا ہے
کہ جیسے سامنے سوئی کے کچھ غبارے دوست
اب اپنی عمر سے باتیں بڑی نہیں کرنی
مجھے بزرگ سمجھنے لگے ہیں سارے دوست
میں اس کو فون کروں اور وہ کہے جی کون
یہ دل کی ضد ہے کہ فوری کہوں تمہارے دوست
یہ عاشقی ہے جو کرتی ہے دل کو دریا بھی
پھر اس کے بعد دکھائے گی دو کنارے دوست
میں شہری ہو کے کبوتر اڑا رہا ہوں کیوں
وہ بے سمجھ ہے سمجھتی نہیں اشارے دوست
غزل
کوئی بھی عشق میں اتنی ہی دیر ٹکتا ہے (ردیف .. ت)
مژدم خان