EN हिंदी
کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا | شیح شیری
koi bhi ham-safar nahin hota

غزل

کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا

فرحت کانپوری

;

کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا
درد کیوں رات بھر نہیں ہوتا

راہ دل خودبخود ہے مل جاتی
کوئی بھی راہبر نہیں ہوتا

آہ کا بھی نہ ذکر کر اے دل
آہ میں بھی اثر نہیں ہوتا

دل کو آسودگی بھی کیونکر ہو
غم سے شیر و شکر نہیں ہوتا

آہ اے بے خبر یہ بے خبری
دل ناداں خبر نہیں ہوتا

دل کی راہیں جدا ہیں دنیا سے
کوئی بھی راہبر نہیں ہوتا

اب تو محفل سے چل دیا فرحتؔ
اب کسی کا گزر نہیں ہوتا