کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا
درد کیوں رات بھر نہیں ہوتا
راہ دل خودبخود ہے مل جاتی
کوئی بھی راہبر نہیں ہوتا
آہ کا بھی نہ ذکر کر اے دل
آہ میں بھی اثر نہیں ہوتا
دل کو آسودگی بھی کیونکر ہو
غم سے شیر و شکر نہیں ہوتا
آہ اے بے خبر یہ بے خبری
دل ناداں خبر نہیں ہوتا
دل کی راہیں جدا ہیں دنیا سے
کوئی بھی راہبر نہیں ہوتا
اب تو محفل سے چل دیا فرحتؔ
اب کسی کا گزر نہیں ہوتا
غزل
کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا
فرحت کانپوری