کوئی بھی در نہ ملا نارسی کے مرقد میں
میں گھٹ کے مر گیا اپنی صدا کے گنبد میں
غبار فکر چھٹا جب تو دیکھتا کیا ہوں
ابھی کھڑا ہوں میں حرف و نوا کی سرحد میں
مرے حریفوں پہ بے وجہ خوف غالب ہے
ہے کون میرے سوا میرے وار کی زد میں
کوئی خبر ہی نہ تھی مرگ جستجو کی مجھے
زمیں پھلانگ گیا اپنے شوق بے حد میں
عجب تھا میں بھی کہ خود اپنی ہی ثنا کی زیبؔ
پھر ایک ہجو کہی اس قصیدے کی رد میں
غزل
کوئی بھی در نہ ملا نارسی کے مرقد میں
زیب غوری