کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں
کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بنتے ہیں
جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رت میں
خشک پتے دھرتی پر زرد شال بنتے ہیں
آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تناؤ ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو خیال بنتے ہیں
شہر والے پوچھیں گے کچھ سبب جدائی کا
گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال بنتے ہیں
ہجر کے مناظر کو بھولنا ہی بہتر ہے
پیار کی طنابوں سے پھر وصال بنتے ہیں
حلقۂ محبت میں جو نظیر بن جائے
آؤ ہم وفاؤں کی وہ مثال بنتے ہیں
اب پرانی باتوں کو کیا کریدنا شاہدؔ
بھول کر گذشتہ کو اپنا حال بنتے ہیں
غزل
کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں
شاہد فرید