EN हिंदी
کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے | شیح شیری
koi aur hai nahin to nahin mere ru-ba-ru koi aur hai

غزل

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

ناصر کاظمی

;

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

یہ گناہ گاروں کی سر زمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سبب نمو کوئی اور ہے

جسے ڈھونڈھتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے

کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا مے کدہ کہیں اور ہے مرا ہم سبو کوئی اور ہے