کوئی اپنے واسطے محشر اٹھا کر لے گیا
یعنی میرے خواب کا منظر اٹھا کر لے گیا
زخم خوردہ تھا یقیناً کوئی خوشبو آشنا
جو لگا تھا سر پہ وہ پتھر اٹھا کر لے گیا
گوشہ گوشہ آئنہ خانہ نظر آیا مجھے
خود کو جب باہر سے میں اندر اٹھا کر لے گیا
کیوں سرابوں کو سمجھتا ہے وہ بحر بیکراں
کیوں وہ میری ذات کا پیکر اٹھا کر لے گیا
کچھ نہ کچھ لے کر ہی کچھ دیتی ہے دنیا اس لیے
خود غرض دنیا سے میں دفتر اٹھا کر لے گیا
میں تو سنگ میل ہوں ہر راہ رو کے واسطے
کیا ملے گا کوئی مجھ کو گر اٹھا کر لے گیا
اطلس و کم خواب میں ملبوس تھا جس کا بدن
کیوں مری میلی سی وہ چادر اٹھا کر لے گیا
کل تلک جو کہہ رہا تھا میرے فن کو رائیگاں
آج وہ میرا غزل ساگر اٹھا کر لے گیا
کس نے مجھ کو انجمن میں کر دیا تنہا ولیؔ
کون میری فکر کا محور اٹھا کر لے گیا

غزل
کوئی اپنے واسطے محشر اٹھا کر لے گیا
ولی اللہ ولی