کوئی ایسا حل نکالیں سلسلہ یوں ہی رہے
مر بھی جائیں تو ہمارا رابطہ یوں ہی رہے
چلتی جائے کشتی یوں ہی بادباں کھولے ہوئے
یہ جزیرے یہ دھواں آب و ہوا یوں ہی رہے
ختم ہو جائے دکھوں کا یہ پہاڑی سلسلہ
اور قائم دو دلوں کا حوصلہ یوں ہی رہے
میری آنکھوں میں سدا کھلتے رہیں اشکوں کے پھول
اور ترے معصوم ہونٹوں پر دعا یوں ہی رہے

غزل
کوئی ایسا حل نکالیں سلسلہ یوں ہی رہے
حسن عباسی