کہسار کے دامن میں ہوا تیز بہت ہے
پر یہ کہ مرا دوست کم آمیز بہت ہے
اتنا نہ ہوئے ہوتے ہم افسردہ وطن میں
ہجرت میں تری یاد غم انگیز بہت ہے
حسن آتا ہے اشیاء میں موقع سے محل سے
ہر مار سیہ زلف دل آویز بہت ہے
برسات کے موسم میں کرے نالہ نہ کوئی
بارش سے یہاں سیل رواں تیز بہت ہے
جو نور ہے چہرے پہ عبادت کے عوض ہے
عابدؔ کا تو ان اشیاء سے پرہیز بہت ہے

غزل
کہسار کے دامن میں ہوا تیز بہت ہے
محمد عابد علی عابد