کوہ غم سے کیا غرض فکر بتاں سے کیا غرض
اے سبک روئی تجھے بار گراں سے کیا غرض
بے نشانیٔ محبت کو نشاں سے کیا غرض
اے یقین دل تجھے وہم و گماں سے کیا غرض
نالۂ بے صوت خود بننے لگا مہر سکوت
بے زبانی کو ہماری اب زباں سے کیا غرض
جوہر ذاتی ہیں اس کی تیزیاں اے سنگ دل
تیغ ابرو کو تری سنگ فساں سے کیا غرض
جب محبت میں ہوئی رسوائی اپنی پردہ دار
راز سے پھر کیا تعلق رازداں سے کیا غرض
جان دے کر زندۂ جاوید ہو جاتا ہے وہ
موت کے خواہاں کو عمر جاوداں سے کیا غرض
میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں میں ضروری لاگ ہے
وہ یہ کہتے ہیں زمیں کو آسماں سے کیا غرض
دہر میں جو کچھ بھی ہونا تھا وہ ہو کر ہی رہا
اب گزشتہ وارداتوں کے بیاں سے کیا غرض
جس میں قدرت خود نشانے پر پہنچ جانے کی ہو
قدرؔ پھر اس تیر کو سعیٔ کماں سے کیا غرض
غزل
کوہ غم سے کیا غرض فکر بتاں سے کیا غرض
ابوزاہد سید یحییٰ حسینی قدر