کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں
نہ کچھ یہاں سے غرض ہے نہ کچھ وہاں سے ہمیں
خودی کو بھول کے مست الست ہو جانا
ملا ہے فیض یہ خم خانۂ مغاں سے ہمیں
اذاں حرم میں ہے ناقوس ہے کنشت میں تو
صدائیں آتی ہیں تیری کہاں کہاں سے ہمیں
پھر آج اٹھا ہے وہ پردۂ حجاب کہیں
شعاعیں سی نظر آتی ہیں کچھ یہاں سے ہمیں
مثال شمع ہیں سب رات بھر کے یہ جلوے
سحر کو اٹھنا ہے اس محفل جہاں سے ہمیں
مٹا کے ہستئ موہوم تجھ کو پایا ہے
پتہ ملا ہے ترا خاک بے نشاں سے ہمیں
چمن سے اٹھ گیا رونقؔ جب آشیاں اپنا
نہ پھر بہار سے مطلب نہ کچھ خزاں سے ہمیں

غزل
کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں
پیارے لال رونق دہلوی