کیا گردشوں کے حوالے اسے چاک پر رکھ دیا
کہ بننے بگڑنے کا ہر فیصلہ خاک پر رکھ دیا
مجھے قصر تعبیر کی اس نے سب کنجیاں سونپ دیں
مگر چھین کر خواب آنکھوں سے افلاک پر رکھ دیا
سوا راکھ ہونے کے اب کوئی چارہ بچا ہی نہیں
شرار ہوس کس نے یہ میرے خاشاک پر رکھ دیا
کوئی ہے جو گرداب غم سے بچائے ہوئے ہے مجھے
کہ اک مہرباں ہاتھ پھر چشم نمناک پر رکھ دیا
کوئی کام اسلمؔ بنا ہی نہیں وحشتوں کے بغیر
جلا کر چراغ جنوں طاق ادراک پر رکھ دیا
غزل
کیا گردشوں کے حوالے اسے چاک پر رکھ دیا
اسلم محمود