کواڑ بند بھی ہے اور نیم وا بھی ہے
وہ روپ انوپ ذرا خوش ذرا خفا بھی ہے
شریک راہ وفا گل سرشت ماہ بہ کف
قتیل گردش دوراں برہنہ پا بھی ہے
حقیقتوں سے فسانوں کو کیا علاقہ ہے
خدا نہیں بھی ہے لوگو مگر خدا بھی ہے
ہجوم نغمہ و نکہت میں یوں تو ہوتا ہے
خطا معاف خطا تو نہیں خطا بھی ہے
وہی غزل کی روایات کافری ہیں ابھی
وہی حجاب وہی شوخیٔ ادا بھی ہے
افق افق ابھی انساں کی منزلیں ہیں وقارؔ
اسی زمیں پہ مگر راہ ارتقا بھی ہے

غزل
کواڑ بند بھی ہے اور نیم وا بھی ہے
وکیل اختر