کتنی ٹھنڈی تھی ہوا قریۂ برفانی کی
جم گئی دل میں کسک شام زمستانی کی
حادثہ کوئی نیا راہ پہ گزرا ہوگا
دھول ہر چہرے پہ بکھری ہے پریشانی کی
میں جہاں جاؤں وہیں موت کی تحویل میں ہوں
تیغ اک لٹکی ہے ہر سانس پہ نگرانی کی
میرے تیور پہ مرا نام و نسب کندہ ہے
دل کا آئینہ ہے تختی مری پیشانی کی
شاخ مژگاں پہ لہکتے ہوئے اشکوں کے گلاب
فصل پنپی ہے بہت خطۂ بارانی کی
کیا خبر کس کا سفینہ سر ساحل پہنچے
لہر خطرے سے کہیں اونچی ہے طغیانی کی
حاصل کشت کی ہو کیسے توقع راسخؔ
سوکھے نالوں میں کہیں بوند نہیں پانی کی
غزل
کتنی ٹھنڈی تھی ہوا قریۂ برفانی کی
راسخ عرفانی