کتنی آسانی سے دنیا کی گرہ کھولتا ہے
مجھ میں اک بچہ بزرگوں کی طرح بولتا ہے
کیا عجب ہے کہ اڑاتا ہے کبوتر پہلے
پھر فضاؤں میں وہ بارود کی بو گھولتا ہے
روپ کتنے ہی بھریں کتنے ہی چہرے بدلیں
آئینہ آپ کو اپنی ہی طرح تولتا ہے
سوچ لو کل کہیں آنسو نہ بہانے پڑ جائیں
خون کا کیا ہے رگوں میں وہ یونہی کھولتا ہے
ہاتھ اٹھاتا ہے دعاؤں کو فلک بھی اس دم
جب پرندہ کوئی پرواز کو پر تولتا ہے
کون واقف نہیں سنسار کے سچ سے لیکن
سب کا سنسار کی ہر چیز پہ من ڈولتا ہے
غزل
کتنی آسانی سے دنیا کی گرہ کھولتا ہے
راجیش ریڈی