کتنے تفکرات سے آزاد ہو گیا
وہ آدمی جو اینٹ پہ سر رکھ کے سو گیا
سورج ڈھلا تو طاق میں جلتا ہوا دیا
تاریکیوں سے بر سر پیکار ہو گیا
اپنی غلاظتیں تھیں کہ از راہ التفات
سیلاب شہر کے در و دیوار دھو گیا
اک دوست سے یہاں بھی ملاقات ہو گئی
رہنا یہاں بھی اب مرا دشوار ہو گیا
اک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
اک اور گاؤں شہر کی وسعت میں کھو گیا
خالدؔ مجھے تو اچھی طرح یاد بھی نہیں
وہ حادثہ جو کل مری پلکیں بھگو گیا
غزل
کتنے تفکرات سے آزاد ہو گیا
خالد صدیقی