کتنے نازک کتنے خوش گل پھولوں سے خوش رنگ پیالے
اک بدمست شرابی نے میخانے میں ٹکڑے کر ڈالے
موسمیات کے ماہر ہونے کے تو دعویدار سبھی ہیں
ہم سمجھیں جو حبس گھٹائے ہم مانیں جو جھکڑ ٹالے
مصنوعی نیلونی پھولوں سے گلدان سجائے جائیں
اور قربنیقوں کا لقمہ بن جائیں خوشبوؤں والے
فرعونوں کے گھر ہی ان کے زہروں کے تریاق پلے ہیں
راتوں کی آغوش ہی پالے اے دل سرخ سپید اجالے
ہم کو شریفؔ یہ پختہ یقیں ہے آج اگر ہیں کل نہ رہیں گے
راہوں میں کانٹے ہی کانٹے پاؤں میں چھالے ہی چھالے
غزل
کتنے نازک کتنے خوش گل پھولوں سے خوش رنگ پیالے
شریف کنجاہی