کتنے نایاب تھے لمحے جو وہاں پر گزرے
جب اٹھے ہاتھ دعاؤں کو تو گوہر برسے
تک رہے تھے ترے گھر کو وہ سماں بھی کیا تھا
تو گزرتا ہے ہوا آئی تو ہم یہ سمجھے
کتنی ہی بار کیا ہم نے تو زمزم سے وضو
کتنی ہی بار تری یاد میں آنسو چھلکے
سرمۂ خاک مدینہ جو لگا آنکھوں میں
مثل آئینے کے آنکھوں کے نگینے چمکے

غزل
کتنے نایاب تھے لمحے جو وہاں پر گزرے
رضیہ حلیم جنگ