EN हिंदी
کتنے نایاب تھے لمحے جو وہاں پر گزرے | شیح شیری
kitne nayab the lamhe jo wahan par guzre

غزل

کتنے نایاب تھے لمحے جو وہاں پر گزرے

رضیہ حلیم جنگ

;

کتنے نایاب تھے لمحے جو وہاں پر گزرے
جب اٹھے ہاتھ دعاؤں کو تو گوہر برسے

تک رہے تھے ترے گھر کو وہ سماں بھی کیا تھا
تو گزرتا ہے ہوا آئی تو ہم یہ سمجھے

کتنی ہی بار کیا ہم نے تو زمزم سے وضو
کتنی ہی بار تری یاد میں آنسو چھلکے

سرمۂ خاک مدینہ جو لگا آنکھوں میں
مثل آئینے کے آنکھوں کے نگینے چمکے