کتنے خواب ٹوٹے ہیں کتنے چاند گہنائے
جو رقیب ظلمت ہو اب وہ آفتاب آئے
دشمنوں کو اپنایا دوستوں کے غم کھائے
پھر بھی اجنبی ٹھہرے پھر بھی غیر کہلائے
نا خدا کی نیت کا کھل گیا بھرم تو کیا
بات جب ہے کشتی بھی ڈوبنے سے بچ جائے
حادثے بھی برسیں گے زلزلے بھی آئیں گے
یہ سفر قیامت ہے تم کہاں چلے آئے
پھول پھول برہم ہے خار خار دشمن ہے
ہم مجیبؔ گلشن سے لو لگا کے پچھتائے
غزل
کتنے خواب ٹوٹے ہیں کتنے چاند گہنائے
مجیب خیر آبادی