کتنے جگ بیت گئے پھر بھی نہ بھولا جائے
میں جہاں جاؤں مرے ساتھ وہ چہرہ جائے
رات اب لوٹ چلی نیند سے جاگا جائے
اپنے کھوئے ہوئے سورج کو پکارا جائے
یہ دمکتے ہوئے رخسار چمکتی آنکھیں
زندگی کر چکے اب ڈوب کے دیکھا جائے
اب کے طوفان میں ہو جائے نہ ریزہ ریزہ
جسم کی ٹوٹتی دیوار کو تھاما جائے
محتسب شہر میں میزان لئے پھرتے ہیں
ہم گنہ گار ہیں اس شہر سے بھاگا جائے
اپنے ہی دل میں کبھی جھانک کے دیکھو مجھ کو
میں کوئی راز نہیں ہوں جسے سمجھا جائے
لے کے شیشے میں چلو آتش سیال شمیمؔ
قاضئ شہر کے ایمان کو پرکھا جائے
غزل
کتنے جگ بیت گئے پھر بھی نہ بھولا جائے
سید احمد شمیم