کتنے ہوئے ہیں خون یہاں اک اصول کے
آئیں گے اب نہ شہر تمنا میں بھول کے
ساری مسافرت کی تھکن دور ہو گئی
پیش آئے کتنے پیار سے کانٹے ببول کے
چہرے ہوئے جو گرد تو آئینہ بن گئے
کیا طرفہ معجزات تھے صحرا کی دھول کے
کتنا حسیں تھا جرم غم دل کہ دو جہاں
در پہ ہیں آج تک مرے رنگ قبول کے
نازاں ہے زندگی مری اب ان کی موت پر
جو لوگ رہ گئے تری باہوں میں جھول کے
آنے کو تھی بس آخری ہچکی مریض کو
قربان جائیے تری شان نزول کے
اے دلؔ یہ حال عشق میں ہوگا خبر نہ تھی
پچھتائے ہم تو روگ لگا کر فضول کے
غزل
کتنے ہوئے ہیں خون یہاں اک اصول کے
دل ایوبی