کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے
ہم اپنی لاش آپ اٹھا کر گزر گئے
وہ یورش الم تھی کہ تیری گلی سے ہم
تجھ کو بھی اپنے جی سے بھلا کر گزر گئے
اہل خرد فسانوں کے عنواں بنے رہے
اہل جنوں فسانے سنا کر گزر گئے
اس احتیاط درد کی وحشت کہ ہم کبھی
خود کو تری نظر سے چھپا کر گزر گئے
تو ہی ملا نہ ہم ہی ملے اپنے آپ کو
سائے سے درمیان میں آ کر گزر گئے
اب تو بتاؤ ہم کو کہاں جاؤ گے متینؔ
وہ کون تھے جو آگ لگا کر گزر گئے
غزل
کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے
اقبال متین