EN हिंदी
کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے | شیح شیری
kitne hi log dil talak aa kar guzar gae

غزل

کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے

اقبال متین

;

کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے
ہم اپنی لاش آپ اٹھا کر گزر گئے

وہ یورش الم تھی کہ تیری گلی سے ہم
تجھ کو بھی اپنے جی سے بھلا کر گزر گئے

اہل خرد فسانوں کے عنواں بنے رہے
اہل جنوں فسانے سنا کر گزر گئے

اس احتیاط درد کی وحشت کہ ہم کبھی
خود کو تری نظر سے چھپا کر گزر گئے

تو ہی ملا نہ ہم ہی ملے اپنے آپ کو
سائے سے درمیان میں آ کر گزر گئے

اب تو بتاؤ ہم کو کہاں جاؤ گے متینؔ
وہ کون تھے جو آگ لگا کر گزر گئے