کتنے ہی فیصلے کئے پر کہاں رک سکا ہوں میں
آج بھی اپنے وقت پر گھر سے نکل پڑا ہوں میں
ابر سے اور دھوپ سے رشتہ ہے ایک سا مرا
آئنے اور چراغ کے بیچ کا فاصلہ ہوں میں
تجھ کو چھوا تو دیر تک خود کو ہی ڈھونڈتا رہا
اتنی سی دیر میں بھلا تجھ سے کہاں ملا ہوں میں
خوشبو ترے وجود کی گھیرے ہوئے ہے آج بھی
تیرے لبوں کا ذائقہ بھول نہیں سکا ہوں میں
آیتوں جیسے ناگہاں جاوداں لمس کی قسم
تیرے اچھوتے جسم کا پہلا مکالمہ ہوں میں
ویسے تو میرا دائرہ پورا نہیں ہوا ابھی
ایسی ہی کوئی قوس تھی جس سے جڑا ہوا ہوں میں
جتنی بھی تیز دھوپ ہو شاخیں ہیں مہرباں تری
چھاؤں پرائی ہی سہی سانس تو لے رہا ہوں میں
غزل
کتنے ہی فیصلے کئے پر کہاں رک سکا ہوں میں
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ