EN हिंदी
کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی | شیح شیری
kisi zalim ki jite-ji sana-KHwani nahin hogi

غزل

کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی

صابر آفاقی

;

کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی
کہ دانا ہو کے مجھ سے ایسی نادانی نہیں ہوگی

دل آباد کا سا کوئی شہر آباد کیا ہوگا
دل ویران کی سی کوئی ویرانی کہاں ہوگی

عدو سے کیا گلہ کرنا کہ وہ معذور لگتا ہے
ہماری قدر و قیمت اس نے پہچانی نہیں ہوگی

نجومی میں نہیں لیکن یہ اندازے سے کہتا ہوں
محبت تو رہے گی پر یہ ارزانی نہیں ہوگی

علاج اصل ہے اک آزمودہ نسخہ دنیا میں
پریشاں تم رہو گے تو پریشانی نہیں ہوگی

کھلا دروازہ رکھ چھوڑا ہے جب جی چاہے آ جانا
اجی اب ہم سے اپنے گھر کی دربانی نہیں ہوگی

نہ تم آئے تو صابرؔ کیا مزہ آئے گا محفل میں
غزل خوانی تو ہوگی پر گل افشانی نہیں ہوگی