کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے
میں نے یہ زندگی بے کار گزرنے دی ہے
تنگ کرتی ہے بہت تشنہ لبی ہم کو بھی
سانس بھرتا ہے اگر پیاس تو بھرنے دی ہے
اتنی بے رحم مسیحائی مرے پاس رہی
زندہ کر دی کوئی خواہش کبھی مرنے دی ہے
کوئی گوہر تری آئندہ کی لہروں میں نہیں
ایک دریا کو خبر پچھلے پہر نے دی ہے
اس مشقت نے اسے تجربہ انعام دیا
اک تھکن اس کو مگر دشت سفر نے دی ہے
غزل
کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے
قاسم یعقوب