کسی صورت سے اس محفل میں جا کر
مقدر ہم بھی دیکھیں آزما کر
تغافل کیش میں نے ہی بنایا
اسے حال دل شیدا سنا کر
اٹھا لینے سے تو دل کے رہا میں
تو اب ظالم وفا کر یا جفا کر
ترے گلشن میں پہنچے کاش اک دن
نسیم آشنائی راہ پا کر
خوشی ان کو مبارک ہو الٰہی
وہ خوش ہیں خاک میں مجھ کو ملا کر
دہن ہے رشک سے غنچے کا پرخوں
کدھر دیکھا تھا تم نے مسکرا کر
وہ شرماتے ہیں سن کر وصل کا نام
رہا ہوں میں جو چپ تو بات پا کر
ہوا وہ بے وفائی میں مسلم
نشان تربت عاشق مٹا کر
گناہ اپنے مجھے یاد آئے وحشتؔ
خجل سا رہ گیا میں ہاتھ اٹھا کر
غزل
کسی صورت سے اس محفل میں جا کر
وحشتؔ رضا علی کلکتوی