کسی صورت سے ہو جاتا ہے سامان سفر پیدا
ارادہ کر ہی لیتا ہے خود اپنی رہ گزر پیدا
گنہ گاری کی نیت کو گنہ گاری نہیں کہتے
سفر کے قصد سے ہوتی ہے کب گرد سفر پیدا
ضروری کیا کہ برسے آگ اوپر سے نشیمن پر
خس و خاشاک میں ہو جائیں گے برق و شرر پیدا
کوئی پرسان غم ہو یا نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے
اذیت خود ہی کر لیتی ہے اپنا چارہ گر پیدا
منورؔ مجھ پہ شام یاس غالب آ نہیں سکتی
کہ ہر امید سے ہوتا ہے اک رنگ سحر پیدا
غزل
کسی صورت سے ہو جاتا ہے سامان سفر پیدا
منور لکھنوی