EN हिंदी
کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی | شیح شیری
kisi se wasl mein sunte hi jaan sukh gai

غزل

کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی

ریاضؔ خیرآبادی

;

کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
چلو ہٹو بھی ہماری زبان سوکھ گئی

اک آہ گرم نے جھلسائے خوشۂ انجم
تمام کھیتی تری آسمان سوکھ گئی

قیامت اور وہ ہنگامہ پھر قیامت کا
لحد سے اٹھتے ہی دھڑکوں سے جان سوکھ گئی

رہا نہ بعد مرے ہائے کوئی آبلہ پا
پکارتے ہیں یہ کانٹے زبان سوکھ گئی

شب فراق کا آدھا نہیں رہا تن و توش
یہ میرے گھر جو ہوئی میہمان سوکھ گئی

ملا بھی ہم کو تو بے وقت اس طرح کھانا
کہ چاول اینٹھ گئے اور نان سوکھ گئی

بہت ہی پھولی ہوئی تھی یہ اپنی رنگت پر
جو دیکھا رنگ مرا زعفران سوکھ گئی

ہوائے گرم خزاں میں وہ رنگ و روپ کہاں
تھی عندلیب یوں ہی دھان پان سوکھ گئی

ریاضؔ یاد ہے ان کا وصال میں کہنا
خدا کے واسطے چھوڑو زبان سوکھ گئی