کسی سے راز محبت نہ آشکار کیا
تری نظر کے بدلنے تک انتظار کیا
نہ کوئی وعدہ تھا ان سے نہ کوئی پابندی
تمام عمر مگر ان کا انتظار کیا
ٹھہر کے مجھ پہ ہی اہل چمن کی نظروں نے
مرے جنون سے انداز بہار کیا
سحر کے ڈوبتے تارو گواہ رہنا تم
کہ میں نے آخری سانسوں تک انتظار کیا
جہاں سے تیری توجہ ہوئی فسانے پر
وہیں سے ڈوبتی نبضوں نے اختصار کیا
یہی نہیں کہ ہمیں انتظار کرتے رہے
کبھی کبھی تو انہوں نے بھی انتظار کیا
غزل
کسی سے راز محبت نہ آشکار کیا
کرشن بہاری نور

