EN हिंदी
کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو | شیح شیری
kisi se koi KHafa bhi nahin raha ab to

غزل

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو

جون ایلیا

;

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
گلا کرو کہ گلا بھی نہیں رہا اب تو

وہ کاہشیں ہیں کہ عیش جنوں تو کیا یعنی
غرور ذہن رسا بھی نہیں رہا اب تو

شکست ذات کا اقرار اور کیا ہوگا
کہ ادعائے وفا بھی نہیں رہا اب تو

چنے ہوئے ہیں لبوں پر ترے ہزار جواب
شکایتوں کا مزہ بھی نہیں رہا اب تو

ہوں مبتلائے یقیں میری مشکلیں مت پوچھ
گمان عقدہ کشا بھی نہیں رہا اب تو

مرے وجود کا اب کیا سوال ہے یعنی
میں اپنے حق میں برا بھی نہیں رہا اب تو

یہی عطیۂ صبح شب وصال ہے کیا
کہ سحر ناز و ادا بھی نہیں رہا اب تو

یقین کر جو تری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو

وہ سکھ وہاں کہ خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ دکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو