کسی سے خوش ہے کسی سے خفا خفا سا ہے
وہ شہر میں ابھی شاید نیا نیا سا ہے
نہ جانے کتنے بدن وہ پہن کے لیٹا ہے
بہت قریب ہے پھر بھی چھپا چھپا سا ہے
سلگتا شہر ندی خون کب کی باتیں ہیں
کہیں کہیں سے یہ قصہ سنا سنا سا ہے
سروں کے سینگ تو جنگل کی دین ہوتے ہیں
وہ آدمی تو ہے لیکن ڈرا ڈرا سا ہے
کچھ اور دھوپ تو ہو اوس سوکھ جانے تک
وہ پیڑ اب کے برس بھی ہرا ہرا سا ہے
غزل
کسی سے خوش ہے کسی سے خفا خفا سا ہے
ندا فاضلی