EN हिंदी
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو | شیح شیری
kisi se ahd-o-paiman kar na rahiyo

غزل

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو

جون ایلیا

;

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو

سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بسے بستر نہ رہیو

ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو

سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو

ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو

بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو

سویرے ہی سے گھر آجائیو آج
ہے روز واقعہ باہر نہ رہیو

کہیں چھپ جاؤ نہ خانوں میں جا کر
شب فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو

نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو