EN हिंदी
کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں | شیح شیری
kisi sabab se agar bolta nahin hun main

غزل

کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں

افتخار مغل

;

کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں
تو یوں نہیں کہ تجھے سوچتا نہیں ہوں میں

میں تم کو خود سے جدا کر کے کس طرح دیکھوں
کہ میں بھی ''تم'' ہوں، کوئی دوسرا نہیں ہوں میں

تو یہ بھی طے! کہ بچھڑ کر بھی لوگ جیتے ہیں
میں جی رہا ہوں! اگرچہ جیا نہیں ہوں میں

کسی میں کوئی بڑا پن مجھے دکھائی نہ دے
خدا کا شکر کہ اتنا بڑا نہیں ہوں میں

مری اٹھان کی ہر اینٹ میں نے رکھی ہے
میں خود بنا ہوں! بنایا ہوا نہیں ہوں میں

یہاں جو آئے گا وہ خود کو ہار جائے گا
قمار خانۂ جاں میں نیا نہیں ہوں میں

مرے وجود کے اندر مجھے تلاش نہ کر
کہ اس مکان میں اکثر رہا نہیں ہوں میں

میں ایک عمر سے خود کو تلاشتا ہوں مگر
مجھے یقین نہیں، ہوں بھی یا نہیں ہوں میں

میں اک گمان کا امکاں ہوں افتخارؔ مغل
کہ ہو تو سکتا ہوں لیکن ہوا نہیں ہوں میں