EN हिंदी
کسی نشاں سے علامت سے یا سند سے نہ ہو | شیح شیری
kisi nishan se alamat se ya sanad se na ho

غزل

کسی نشاں سے علامت سے یا سند سے نہ ہو

آفتاب احمد

;

کسی نشاں سے علامت سے یا سند سے نہ ہو
اگر میں ہوں تو یہ ہونا بھی خال و خد سے نہ ہو

میں ایک ایسے زمانے میں بسنا چاہتا ہوں
زمانہ جس کا تعلق ازل ابد سے نہ ہو

مرے عدو وہ حقیقت بھی کیا حقیقت ہے
ثبوت جس کا میسر اسی کے رد سے نہ ہو

اسی لیے تو میں رکھتا ہوں خوشبوؤں سا مزاج
میں چاہتا ہوں کہ میرا شمار حد سے نہ ہو

بنانے والا ہوں ہاتھوں سے اپنے فردا کا
وہ زائچہ جو لکیروں سے یا عدد سے نہ ہو

وجود واہمہ ہے اے بدن نژاد سمجھ
یہ تیرا سایہ بھی شاید ترے جسد سے نہ ہو

میں اپنا آپ اسی کے سپرد کر دوں گا
اک ایسا شخص جو انبوہ نیک و بد سے نہ ہو