EN हिंदी
کسی نے کیسے نبھائی ہے آسماں سے نہ پوچھ | شیح شیری
kisi ne kaise nibhai hai aasman se na puchh

غزل

کسی نے کیسے نبھائی ہے آسماں سے نہ پوچھ

راحیل فاروق

;

کسی نے کیسے نبھائی ہے آسماں سے نہ پوچھ
نہ پوچھ طائر گم‌ کردہ‌ آشیاں سے نہ پوچھ

سحر بجائے خود اک داستاں نہ ہو جائے
حکایت شب رفتہ مری اذاں سے نہ پوچھ

ترے جمال کو محشر سمجھ رہے ہیں لوگ
امڈ کے آئی ہے خلقت کہاں کہاں سے نہ پوچھ

جواب اور تو مل جائیں گے سبھی لیکن
مرا قصور ہی ارباب دو جہاں سے نہ پوچھ

لگا نقوش قدم کا سراغ آپ ذرا
یہ باغ کس نے اجاڑا ہے باغباں سے نہ پوچھ

جو خوش بیاں ہیں سنا دیں گے یوں بھی سب احوال
جو بے زباں کا فسانہ ہے بے زباں سے نہ پوچھ

اگرچہ عشق ہے پورے وجود کا دشمن
مگر جو دل پہ گزرتی ہے نیم جاں سے نہ پوچھ

ہر اک نگاہ پہ کھلتا نہیں وہ در راحیلؔ
ادھر کا راستہ سالار کارواں سے نہ پوچھ