کسی نے کیسے خزانے میں رکھ لیا ہے مجھے
اٹھا کے اگلے زمانے میں رکھ لیا ہے مجھے
وہ مجھ سے اپنے تحفظ کی بھیک لے کے گیا
اور اب اسی نے نشانے میں رکھ لیا ہے مجھے
میں کھیل ہار چکا ہوں تری شراکت میں
کہ تو نے مات کے خانے میں رکھ لیا ہے مجھے
مرے وجود کی شاید یہی حقیقت ہے
کہ اس نے اپنے فسانے میں رکھ لیا ہے مجھے
شجر سے بچھڑا ہوا برگ خشک ہوں فیصلؔ
ہوا نے اپنے گھرانے میں رکھ لیا ہے مجھے
غزل
کسی نے کیسے خزانے میں رکھ لیا ہے مجھے
فیصل عجمی