کسی نے دل کے طاق پر جلا کے رکھ دیا ہمیں
مگر ہوائے ہجر نے بجھا کے رکھ دیا ہمیں
ہزار ہم نے ضبط سے لیا تھا کام کیا کریں
کسی کے آنسوؤں نے پھر رلا کے رکھ دیا ہمیں
ہماری شہرتیں خراب اس طرح بھی اس نے کیں
کہ اپنے آشناؤں سے ملا کے رکھ دیا ہمیں
ہمیں اس انجمن میں جانے اس نے کیوں بلا لیا
بلا لیا اور اک طرف بٹھا کے رکھ دیا ہمیں
فقط ہم ایک دیکھنے کی چیز بن کے رہ گئے
کسی نے ایسا عشق میں بنا کے رکھ دیا ہمیں
ہم اعتبارؔ اس کی ہر شکست میں شریک تھے
مگر بساط سے الگ اٹھا کے رکھ دیا ہمیں
غزل
کسی نے دل کے طاق پر جلا کے رکھ دیا ہمیں
اعتبار ساجد