کسی نے روح کو جسمی قبائیں بھیجی ہیں
دعائیں مانگی تھیں لیکن دوائیں بھیجی ہیں
جہاں پہ کوئی معانی نہیں تھے لفظوں کے
خموش ہم نے وہاں پر صدائیں بھیجی ہیں
نہ جانے کون سی دنیا سے بارہا کس نے
عجب زبان میں کچھ اطلاعیں بھیجی ہیں
مذاق اڑایا ہے موسم نے تشنہ کامی کا
بغیر پانی کے کالی گھٹائیں بھیجی ہیں
کسی سے دولت غم آج تک نہیں بانٹی
ہمیشہ چٹھی میں دلکش کتھائیں بھیجی ہیں
کہاں کہاں ترے کافر نے سر جھکایا ہے
کہاں کہاں سے مقدس دعائیں بھیجی ہیں
غزل
کسی نے روح کو جسمی قبائیں بھیجی ہیں
سبودھ لال ساقی