کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی
جلے چراغ تو پلکیں جھکیں زمانے کی
جسے بھی دیکھیے اپنی انا کا مارا ہے
امید کس سے رکھے کوئی داد پانے کی
تری گلی میں بھی دار و رسن کا چرچا ہے
بدل گئی ہے ہوا کس قدر زمانے کی
چراغ کشتہ کی مانند نوحہ خواں یہ لوگ
بنے ہیں سرخئ آغاز کس فسانے کی
لرزتے ہاتھوں میں ساز شکستہ کس نے لیا
کہ جیسے ڈوب گئی نبض اک زمانے کی
فسانہ شرح طلب اس قدر نہ تھا لیکن
کہاں کہاں نہ اڑی خاک آشیانے کی
کچھ اور ہو گئے شاہینؔ زخم دل تازہ
وہ میری سعئ پریشاں انہیں بھلانے کی
غزل
کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی
ولی عالم شاہین