EN हिंदी
کسی مرقد کا ہی زیور ہو جائیں | شیح شیری
kisi marqad ka hi zewar ho jaen

غزل

کسی مرقد کا ہی زیور ہو جائیں

رام ریاض

;

کسی مرقد کا ہی زیور ہو جائیں
پھول ہو جائیں کہ پتھر ہو جائیں

خشکیاں ہم سے کنارا کر لیں
تم اگر چاہو سمندر ہو جائیں

تو نے منہ پھیرا تو ہم ایسے لگے
جس طرح آدمی بے گھر ہو جائیں

یہ ستارے یہ سمندر یہ پہاڑ
کس طرح لوگ برابر ہو جائیں

اپنا حق لوگ کہاں چھوڑتے ہیں
دوست بن جائیں برادر ہو جائیں

آمد شب کا یہ مطلب ہوگا
رامؔ کچھ چہرے اجاگر ہو جائیں