کسی کو کیا خبر اے صبح وقت شام کیا ہوگا
خدا جانے ترے آغاز کا انجام کیا ہوگا
گرفتاران گیسو پر نہیں کچھ منحصر ناصح
پھنسا ہے جو تعلق میں اسے آرام کیا ہوگا
عبث ہے زاہدوں کو مے کشی میں عذر ناداری
گرو رکھ لیں اسی کو جامۂ احرام کیا ہوگا
وہی رہ رہ کے گھبرانا وہی نا کار گر آہیں
سوا اس بات کے تجھ سے دل ناکام کیا ہوگا
اسے بھی جلد اٹھا کر طاق نسیاں کے حوالے کر
نہیں پیش نظر جب ختم تو ساقی جام کیا ہوگا
یہی ٹوٹے سبو مٹی کے کافی ہیں قناعت کر
بلوریں جام مے اے رند درد آشام کیا ہوگا
تقرب جن کو ہے ان کو بھی یک گونہ ہے مایوسی
یہ حالت ہے تو پھر دیدار تیرا عام کیا ہوگا
نہ پوچھو مفتیان شرع کا احوال جانے دو
تنفر کفر کو جس سے ہو وہ اسلام کیا ہوگا
سحر فرقت کی ہے اور غش پہ غش آتے ہیں عاشق کو
ابھی سے جب یہ حالت ہو گئی تا شام کیا ہوگا
ضعیفی میں تو شادؔ اللہ اکبر پی گیا خم تک
جوانی میں کہو یہ رند مے آشام کیا ہوگا
زمانہ شادؔ بے گاری میں کیوں آخر پھنساتا ہے
اپاہج کر دیا پیری نے مجھ سے کام کیا ہوگا
غزل
کسی کو کیا خبر اے صبح وقت شام کیا ہوگا
شاد عظیم آبادی