کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر
مگر یہ کون ملا مجھ کو جستجو کے بغیر
عجیب طرز ملاقات تھا سر محفل
پیام سارے ملے مجھ کو گفتگو کے بغیر
مرے جگر کا لہو ہے وفاؤں کا ضامن
حنا بھی اس کی ادھوری ہے اس لہو کے بغیر
خمار و کیف میں آنکھیں ہیں میکدے جیسی
نشے میں چور ہوں میں بھی کسی سبو کے بغیر
ہوا نے خار سے مل کر خراشیں ڈالیں پر
قبائے گل تو مہکتی رہی رفو کے بغیر
ہمارے ذکر پہ ہنگامہ ہو گیا اکثر
لیا ہے نام کہاں اس نے ہاؤ ہو کے بغیر
فضا اداس ہے اس واسطے ضیاؔ صاحب
بہار کیسے چلے میرے ماہ رو کے بغیر
غزل
کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر
سید ضیا علوی