EN हिंदी
کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر | شیح شیری
kisi ko kuchh nahin milta hai aarzu ke baghair

غزل

کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر

سید ضیا علوی

;

کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے آرزو کے بغیر
مگر یہ کون ملا مجھ کو جستجو کے بغیر

عجیب طرز ملاقات تھا سر محفل
پیام سارے ملے مجھ کو گفتگو کے بغیر

مرے جگر کا لہو ہے وفاؤں کا ضامن
حنا بھی اس کی ادھوری ہے اس لہو کے بغیر

خمار و کیف میں آنکھیں ہیں میکدے جیسی
نشے میں چور ہوں میں بھی کسی سبو کے بغیر

ہوا نے خار سے مل کر خراشیں ڈالیں پر
قبائے گل تو مہکتی رہی رفو کے بغیر

ہمارے ذکر پہ ہنگامہ ہو گیا اکثر
لیا ہے نام کہاں اس نے ہاؤ ہو کے بغیر

فضا اداس ہے اس واسطے ضیاؔ صاحب
بہار کیسے چلے میرے ماہ رو کے بغیر