کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
اسی کو لوگ کہتے ہیں خیال خام ہو جانا
محبت سے جو پیش آئے کوئی ہو دوست یا دشمن
ہمیں تو ہر کسی کا بندۂ بے دام ہو جانا
خدا جانے کہ کیا ہوتا مآل اپنی محبت کا
بہت اچھا ہوا آغاز میں انجام ہو جانا
مٹانا ہو اگر دھبا ریا کاری کا اے زاہد
کسی کی بزم میں اک دن شریک جام ہو جانا
جہاں دیکھو وہاں کچھ ذکر ہے اپنی محبت کا
برا ہے آدمی کے واسطے بدنام ہو جانا
کرے گا رخنہ پیدا کوئی دن درباں کا ہنگامہ
قیامت ہے ترے در پر ہجوم عام ہو جانا
حفیظؔ ایسے مسلماں کا بھی کوئی دین و مذہب ہے
بتوں کی دوستی میں تارک اسلام ہو جانا
غزل
کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
حفیظ جونپوری