EN हिंदी
کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا | شیح شیری
kisi ko dekh kar be-KHud dil-e-kaam ho jaana

غزل

کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا

حفیظ جونپوری

;

کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
اسی کو لوگ کہتے ہیں خیال خام ہو جانا

محبت سے جو پیش آئے کوئی ہو دوست یا دشمن
ہمیں تو ہر کسی کا بندۂ بے دام ہو جانا

خدا جانے کہ کیا ہوتا مآل اپنی محبت کا
بہت اچھا ہوا آغاز میں انجام ہو جانا

مٹانا ہو اگر دھبا ریا کاری کا اے زاہد
کسی کی بزم میں اک دن شریک جام ہو جانا

جہاں دیکھو وہاں کچھ ذکر ہے اپنی محبت کا
برا ہے آدمی کے واسطے بدنام ہو جانا

کرے گا رخنہ پیدا کوئی دن درباں کا ہنگامہ
قیامت ہے ترے در پر ہجوم عام ہو جانا

حفیظؔ ایسے مسلماں کا بھی کوئی دین و مذہب ہے
بتوں کی دوستی میں تارک اسلام ہو جانا