کسی کو درد سنانا بھی کتنا مشکل تھا
مذاق اپنا اڑانا بھی کتنا مشکل تھا
حقیقتوں پہ حسیں پردہ ڈالنے کے لیے
فسوں کا جال بچھانا بھی کتنا مشکل تھا
کبھی رہا تھا جن آنکھوں کا بن کے سرمہ میں
انہیں سے آنکھ چرانا بھی کتنا مشکل تھا
وہ لن ترانی میں تھا محو آنکھ بند کئے
سو اس کو شیشہ دکھانا بھی کتنا مشکل تھا
گلوں میں کی وہ لگائی بجھائی صرصر نے
چمن کی لاج بچانا بھی کتنا مشکل تھا
اثرؔ خلل کے شرارے تھے دشت و صحرا میں
سکوں کا خیمہ لگانا بھی کتنا مشکل تھا

غزل
کسی کو درد سنانا بھی کتنا مشکل تھا
مرغوب اثر فاطمی