کسی کی زیست کا بس ایک باب سناٹا
کسی کے واسطے پورا نصاب سناٹا
ہے اس کو لفظ سے مطلب مجھے معانی سے
ہے اس کا شور مرا انتخاب سناٹا
درون خانہ کی ویرانیاں کچھ ایسی تھیں
برون خانہ ہوا آب آب سناٹا
مجھے پتہ ہے کہانی کا اختتام ہے کیا
طویل بات کا لب لباب سناٹا
مری خموشی پہ انگلی اٹھاتا رہتا ہے
خود اپنا کرتا نہیں احتساب سناٹا
بلند ہوتی صدا کو دبا کے خوش مت ہو
ضرور لائے گا اک انقلاب سناٹا
شب فراق تری یاد میری تنہائی
اداس اداس فضا ماہتاب سناٹا
ابھی کمالؔ یہاں قہقہے اچھلتے ہیں
کہیں نہ کر دے انہیں ایک خواب سناٹا
غزل
کسی کی زیست کا بس ایک باب سناٹا
احمد کمال حشمی