EN हिंदी
کسی کی یاد میں شمعیں جلانا بھول جاتا ہے | شیح شیری
kisi ki yaad mein shaMein jalana bhul jata hai

غزل

کسی کی یاد میں شمعیں جلانا بھول جاتا ہے

سہیل ثانی

;

کسی کی یاد میں شمعیں جلانا بھول جاتا ہے
کوئی کتنا ہی پیارا ہو زمانہ بھول جاتا ہے

کسی دن بے نیازی اس کی مجھ کو مار ڈالے گی
خفا کرتا ہے وہ لیکن منانا بھول جاتا ہے

رخ روشن پہ زلفوں کا یہ گرنا جان لیوا ہے
اور اس پر یہ ستم دلبر ہٹانا بھول جاتا ہے

اگر ہے بھولنا مجھ کو کسی سے پیار کر لینا
نیا بنتا ہے جب رشتہ پرانا بھول جاتا ہے

اسی باعث میں سینے سے اسے اڑنے نہیں دیتا
یہ دل ایسا پرندہ ہے ٹھکانا بھول جاتا ہے

ہمیں ہے وصل کی خواہش مگر یہ کام دنیا کے
میں جانا بھول جاتا ہوں وہ آنا بھول جاتا ہے

کسی سے کیا کروں شکوہ ملے ہیں زخم ہی ایسے
کہ جن پر وقت بھی مرہم لگانا بھول جاتا ہے

کوئی آسیب ہے شاید تمہارے شہر میں ثانیؔ
یہاں پہ رہنے والا مسکرانا بھول جاتا ہے